روشنی
کے مینار، قدیم فضلاءِ دیوبند!
از: ساجد احمد صدوی،
شعبہ تخصص فی علوم الحدیث،
جامعہ فاروقیہ،
شاہ فیصل ٹاؤن، کراچی
زمانہ دیکھے
ہوئے لوگ زندہ تاریخ ہواکرتے ہیں،ان کی باتیں،ان کی
معلومات،خیالات اس عہد کی یاددلاتے ہیں جس کووہ پیچھے
چھوڑکرآئے ہوتے ہیں،ان کی زندگی ،ان کے مشاہدات ،تجربات اس
ماحول ،مجالس ،معاشرہ کی جھلک پیش کرتے ہیں،جس کو اب صرف تاریخ
کے بے جان اوراق میں ہی دیکھاجاسکتاہے، جوشخصیات لمبی
عمر پاتی ہیں،و ہ پچھلی زندگی، اس کی روایات،ا
س کے مسائل ،چھوٹے بڑے واقعات ،حالات ،تجربات ،قصے کہانیوں اور سربستہ رازوں
کی جیتی جاگتی کتابوں کادرجہ رکھتی ہیں؛بلکہ
کتابوں میں مذکورموادکی بھی تصدیق وتردید،مبہم کی
توضیح، اجمال کی تفصیل انہی سے حاصل ہوتی ہیں؛
تاریخی پیچیدگیوں کووہی حل کرتے ہیں
واقعات، تاریخ ان کے سامنے رقم ہوئی ہوتی ہے ،وہ اس کے عینی
شاہد اورداخلی رموز واشارات کے شناسا ہوتے ہیں۔
مستقبل کے لیے
تیاری، حال میں ہوتی ہے اورحال کے لیے ماضی
سے مضبوط رشتہ استوار رکھنا،اس کی ہراونچ نیچ سے واقف ہونا، ہرزندہ
قوم کے ہاں ایک بدیہی اور ضروری امر تصورکیاجاتاہے
؛ مگر عموما ماضی کوپڑھنے کے لیے انسان کوبعدمیں لکھی ہوئی
تحریروں سے ہی اپناکام نکالناپڑتاہے ،پھر جس قدرراوی کی
ثقاہت ،اس کی عدالت ہوتی ہے ،اسی کے بقدرتاریخ کافنی
مرتبہ متعین ہوتاہے،بسااوقات ماضی کوپڑھنے کے لیے بعدمیں
لکھی ہوئی ایسی تحریروں پر اعتمادکرناپڑتاہے، جس میں
زبان وبیان کے طبعی فرق کے ساتھ ساتھ صاحب ِقلم کی ترجیحات
کا بھی پورا اثرہوتاہے ،ایسی صورت میں ایک سنجیدہ
قاری تاریخی روایات میں باہم مقابلہ کرنے اور تنقیدی
نظر سے دیکھنے کامحتاج ہوتاہے ،جس کے لیے پچھلے دور کودیکھی
ہوئی شخصیات سب سے بڑا سہارا ہواکرتی ہیں،وہ فنی
سوالات کاجواب دیتی ہیں ، اشکالات کو دورکرتی ہیں
اور کھرے کھوٹے کافرق بآسانی سمجھادیتی ہیں ۔
علمی ،فنی
اور تاریخی جہات کے علاوہ بھی ان طویل العمر شخصیات
کی اہمیت ،قدردانی اور مقام ومرتبہ شناسی کے کئی
پہلوہیں،امت مسلمہ کا تابناک ،مثالی دور وہ ہے ،جو گزرچکاہے ؛ بلکہ حقیقت
یہ ہے کہ انسانی تاریخ کاعظیم دورانیہ بھی وہی
ہے ،جس میں انسانیت کی عظیم شخصیات حضرات انبیاء
کرام علیہم الصلاة والسلام بالخصوص سید الانس والجان حضرت حبیبِ
خدا رسولِ امین صلی اللہ علیہ وسلم کی عظیم المرتبت
شخصیت موجودتھی ،کامیابی وکامرانی ،انسانیت
شناسی ،معرفت خدا وندی ، رفع درجات ،ترقی حقیقی کے
لحاظ سے وہی دور انسانیت کاسب سے تابناک اورحسین دورتھا؛ اس لیے
جولوگ اس کے قریب ہیں،ان کی نسبتیں عالی سمجھی
جاتی ہیں،وہ خیروبرکت کے سرچشمے،علوم ومعرفت کے خزانے ہو ا کرتے
ہیں۔
دارالعلوم دیوبند
متحدہ ہندوستان کی پچھلی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ میں بڑی
اہمیت رکھتاہے، اگریوں کہاجائے کہ اس خطے کی پچھلی ڈیڑھ
سوسالہ تاریخ بلکہ اسلامی دنیاکی تاریخ کو، اس کے پیچ
وخم کو،اس کے اہم واقعات،عوامل کوسمجھنے کے لیے جنوبی ایشیاکے
اس عظیم ادارے اور اس سے وابستہ افراد وشخصیات کی تاریخ،ان
کی زندگی،کارنامے اورخدمات کی طویل فہرست سے واقفیت
ضروری ہے، تواس میں کوئی مبالغہ نہ ہوگا،بلاشبہ دارالعلوم دیوبند
اپنے زبردست کردار،عظیم شخصیات کے ساتھ پچھلے ڈیڑھ سوسال سے
مسلم دنیاپر واضح اثرات رکھتارہاہے ،اسی درس گاہ کی تعلیم
وتربیت اورکارناموں کی بدولت برصغیرکے مسلمان عجمی ہونے
کے باوصف دنیاکے نئے منظرنامے پرایک بڑے عامل کے طورپراپنی
شناخت رکھتے ہیں،راسخ العقیدہ مسلمانوں کی اِس عظیم جمعیت
کامستقبل جن خطوط پراستوارہوگا اور اس کے لیے جولوگ میدان عمل میں
کام آئیں گے، ان کے لیے اپنی موجودہ حالت کواُس رخ پر لے
جاناہوگا، جس طرف کودیوبند کی قدسی صفات شخصیات لے جانا
چاہتی تھیں۔
آج کے مقتدایانِ
قوم وملت کواپنا رشتہ متحدہ ہندوستان کی ان شخصیات سے وابستہ
کرناہوگا،جواس عظیم جمعیت کے لیے پیشوا کی حیثیت
رکھتی ہیں ،ان کی زندگی ، کار کردگی ،اثرات ونتائج
میں’’ تائید غیبی‘‘ اور’’اجتباءِ خاص‘‘ کاگہرائی کے
ساتھ مطالعہ کرناہوگا؛ کیونکہ دارالعلوم دیوبند اوراس سے وابستہ رجال
کار کی تاریخ کا تعلق براہِ راست جنوبی ایشیا کے
مسلمانوں سے ہے، جو اللہ تعالی کی خاص توفیق وتائیدسے اپنی
علمی صلاحیت ،عملی قوت ،ایمان وغیرت کی دولت
اورکثرتِ تعدادکی بدولت عرب وعجم کے مسلمانوں کواپنے زیراثر رکھے ہوئے
ہیں ،اور یوں پوری مسلم و غیر مسلم دنیا ان کے لیے
محنت کامیدان بنی ہوئی ہے،اوربرابراپنی جدوجہدجاری
رکھے ہوئے ہیں،جس کی وجہ سے ہرجگہ ان کی رسائی ہوچکی
ہے، اور دنیا کی تمام قومیں ان سے ایمان واسلام کا درس لے
چکی ہیں۔
نسبتِ دیوبند
کامقام واحترام:
دارالعلوم دیوبند
اور اس سے وابستہ رجال ِکارکی اس تابناک تاریخ کی بناپرآج بھی
دیوبند اوردیوبندی تمام تر سازشوں، پروپیگنڈوں اوردھونس
دھمکیوں کے باوجود مسلم دنیا میں عظمت واحترام اورغیرت
وحمیت کانام ہے،اوراس کے بالمقابل کفر ونفاق کی دنیامیں
وہ اسلام اور مسلمانوں کے محافظ ہونے کی وجہ سے حسد،کینہ اورعداوت کے
سب سے بڑے موردہیں ،جس کے اثرات کوختم یا کم کرنے کے لیے وہ
اپنے تمام تروسائل کوبروئے کارلائے ہوئی ہے ۔
جولوگ اس عظیم ادارے سے وابستہ رہے ہیں،جن
کی جد وجہد، لگن،خون پسینے کانا م دیوبند ہے ،خود ان کاوجود، ان
کی زندگی بھی مسلم دنیامیں عظمت واحترام کی
بڑی علامت ہے ؛یہی وجہ ہے کہ فضلاءِ دیوبند سے رشتہٴ
تلمذکوقابلِ فخرسمجھاجاتاہے،ان کی رائے کووقعت کی نگاہ سے دیکھا
جاتا ہے، ان کے قول وفعل سے راہنمائی لی جاتی ہے، ان سے نسبت
جوڑنے کے راستے تلاش کیے جاتے ہیں،آج بھی عرب وعجم میں
جہاں جہاں لوگ اسلامی علوم وفنون سے وابستگی رکھتے ہیں، اور اس
کے درس وتدریس ،تصنیف و تالیف کا مشغلہ اپنائے ہوئے ہیں،وہ
کسی نہ کسی طرح اپنی علمی نسبت فضلاءِ دیوبند
واکابرِدیوبند کی طرف کرنے کی کوشش کرتے ہیں،متحدہ
ہندوستان سے جو لوگ حجازِ مقدس یا دوسرے بلادِعربیہ کاسفر اختیار
کرتے ہیں ،علم کے سچے طالب بڑے شوق ورغبت سے ان کے آگے زانوئے تلمذتہ کرنے کی
سعادت حاصل کرنے کے لیے امنڈآتے ہیں اور ان سے اجازت ِحدیث
وعلوم حاصل کرکے یوں فرحا ں وشاداں ہونے لگتے ہیں،جیسے برسوں کی
متاعِ گم گشتہ اُن کے ہاتھ لگی ہے ۔
حاسدوں ، دشمنوں
نے طرح طرح کی ترکیبیں کیں،سازشوں کے جال بُنے،لوگوں
کوبدگمان کرنے کی ہزارتدبیریں کیں،کسی نے’’مجہول
التعریف‘‘ بغاوت ، دہشت گرد ی کاواویلا کیا،کسینے ’’حسام‘‘
اور’’الدیوبندیہ ‘‘کاراگ آلاپا،کسی نے محبوبِ کبریا صلی
اللہ علیہ وسلم سے رشتہٴ عشق ومحبت کاٹنے کی ناکام کوشش کی
،توکسی نے ختمِ نبوت پر کامل یقین کی سزادیناچاہا،
کسی کو اہلِ بیت نبوت سے دور کرنے کی سوجھی ،تو کسی
کو حدیث ِنبوی سے الگ کرنے کی ترکیب مفید نظر آئی،کسی
نے لوہے کی سلاخیں دکھاکر دھمکا یا ،توکسی نے زر وزن کی
ہتھکڑیاں ڈالنے کی کوشش کی ،کوئی ان کوترقیٴ
معکوس کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا رہا،توکوئی حریتِ بدفکری
وبدعملی کامخالف ہونے پر نشانہ بنائے رہا،کوئی تقلید کاطعنہ دیتارہا،
توکوئی غیرت وحمیت ِدینی کوفلسفہ عدمِ برداشت
باورکراتارہا ، کفر و نفاق کی فوجوں نے،ان کے زرخرید غلاموں ،چندٹکوں
میں بکنے والے سیاستدانوں اوراے بی سی پل بھر میں
بدلنے والے دانشوروں، سب نے اپنا اپناحصہ ڈالا، زورآزمائی کی،اوربرابرکرتے
رہے ؛ مگراللہ تعالی کی تدبیرسب پرغالب رہی، اس نے شیطانوں
کے تمام ترمنصوبے ، پروگرام خاک میں ملادئے، سچ ہے:
جسے اللہ
رکھے ،اسے کون چکھے
ہمارے ملک اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے تمام اہم دینی اداروں اورموٴثرشخصیات
کا’’علمی اورروحانی نسب نامہ ‘‘دیوبندکی اسی عظیم
درس گاہ سے جاملتاہے ، علمیت و روحانیت کے لبالب چشموں کے سوتے اسی
خاک ِ دیوبند میں ہیں،جہاں علم وعمل کے دریا بہتے ہیں،جس
کے باغ وبہار کی مہک اقصائے عالم کوپہنچی ہے ،جس کے بلند قامت درخت
آسمانِ بلند ی کوچھوتے ہیں، آفتابِ ختم نبوت کی ضیا پاشیوں
سے جس کی آبیاری کی جاتی رہی ہے ۔
آج ہم اس عظیم
مرکزکی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ کواپنی آنکھوں سے مشاہدہ کرکے یہ
جرأت کرسکے ہیں؛ مگریہ ظاہربین نگاہوں کی باتیں ہیں،
۱۵،محرم الحرام،۱۲۸۳ھ ، مطابق ۳۰ ،مئی ۱۸۶۶ء/،پنجشنبہ کونہایت
بے سروسامانی کے عالم میں ’’چھتہ مسجد‘‘ کے کھلے صحن میں انارکے
ایک چھوٹے سے درخت کے سایہ میں، جس ادارہ کی بنیاد
رکھی جارہی تھی،اور ایک استاد،ایک شاگردسے جس کاخِ
فقیری کی عمارت بلندکی جارہی تھی،ابھی
اس کوتیرہ سال ہی گزرے تھے ،کہ اس کی عظیم برکات اورفیوض
کا سلسلہ اتناعام ہوا،کہ یکم صفر ۱۲۹۶ھ کو ایک
مردِ بیناحضرت مولانامحمدیعقوب صاحب نانوتوی رحمہ اللہ تعالی
نے،جلسہٴ انعام کے موقع پر ارشاد فرمایا:
’’خداوندکریم
کاشکرکس زبان سے ادا کیاجائے،کہ تیرھواں سال اس مدرسہ کاجس کو ’’دارالعلوم‘‘
کہنابجاہے،بخیر وخوبی پورا ہوا،اس تھوڑے سے عرصے میں اسلام
اوراہل اسلام کوبے شمارنفع پہنچا،بے اختیار اس کے حق میں یہ
شعرپڑھنے کوجی چاہتاہے ۔
تم سلامت
رہو، ہزار برس
اورہربرس
کے ہوں دن ، پچاس ہزا ر ‘‘
(روداد۱۲۹۵ھ ص:۱۶،و۱۲۹۶ھ
ص:۱۱، بحوالہ
تاریخ داراالعلوم دیوبند،ازسید محبوب رضوی، ص: ۱۸۸، طبع اول)
اللہ تعالی
کی طرف توجہ ،تواضع وانکساری اوردور بین نگاہی کی
حامل مردِ بینا کی یہ بات کس قدرواقعہ وحقیقت کے مطابق
ہے،ہم جیسے ظاہربینوں کوبھی روزِروشن کی طرح نظر آرہی
ہے ۔
وطنِ عزیزمیں
موجودقدیم فضلاء ِدیوبند:
نبوی علوم
کے وارث ،قدیم فضلاء دیوبند کی تعداد اب بہت کم ہوتی جارہی
ہے ،ماضی قریب میں بھی نہایت اہم شخصیات ،قدیم
فضلاءِ دیوبندہم سے رخصت ہوچکے ہیں ، رفتہ رفتہ ان کے وجودِ مسعود سے
سرزمین خالی ہوتی جارہی ہے ،تاہم اب بھی روشنی
کے چند مینارایستادہ ہیں،جن کی نورانی شعاعوں سے
مسافرانِ منزل ظلمتوں میں راہ پاتے ہیں، جن کے دم قدم سے علم وعمل اور
خیر وبرکت کی مجلسوں کی رونقیں بحال ہیں،’’حریتِ
بدفکر ی‘‘ا ور ’’حریت ِبدعملی‘‘ کے لیے’’ پرکشش نام ولیبل‘‘
استعمال کرنے والوں کومسلسلناکامی کا سامنا ہے،فتنوں،آزمائشوں کے گھٹاٹوپ
اندھیروں میں ’’حق وثبات‘‘ کے دئیے روشن کیے ہوئے ہیں،یاس
وناامیدی کی گھڑیوں میں امید کی آخری
کرن ہیں،تمام علوم وفنون ، بالخصوص حدیث اورعلومِ حدیث میں
سلفِ صالحین سے نسبتیں جوڑنے کاواسطہ و وسیلہ ہیں،اجازت
کے مبارک،متوارث سلسلے کے حصول کے لیے مرجع ہیں،اوربے شمارخوبیوں
کے ساتھ قوم ،ملک و ملت کے لیے ان کاوجود اللہ تعالی کی طرف سے
عطیہ ، انعام اوربرکت کا سبب ہے۔
ان میں سے
چندحضرات تووہ ہیں ،جن کی شہرت چاردانگ عالم میں ہے ، ایک
بڑی دنیا ان سے وابستہ ہے ،ان کے افادات وفیوض کامبارک سلسلہ
برابرجاری ہے ،اور کچھ نام ایسے بھی ہیں ،جواپنی
قدامت ،عمراورطبقہ کے اونچاہونے کے باوصف شہرت وناموری سے دورہیں،میڈیا
کے زیراثرماحول میں رہتے ہوئے بھی، گوشہ گمنامی میں
رہتے ہیں، خال خال ہی ان کاذکر ہوتاہے ،اورکسی کسی کا ان
کی مجلس سے گزرہوتاہے ،ان سے فیض پانے والوں کا کوئی تانتانہیں
بندھا ہوتا، اس میں ان کی طبیعت کی نزاکت ، صحت وضعف کے
اثرات ، سہولیات کافقدان اورشہرت کے رسمی مقامات سے دوری کوبھی
دخل ہوتاہے؛ مگر ان سب سے بڑھ کرہم جیسوں کی نااہلی اورناقدری
بھی ایک معلوم سبب ہے ، جس کی وجہ سے محرومی ہوتی
ہے ۔
روشنی کے ایستادہ
مینار:
وطن عزیز میں
قدیم بزمِ دیوبندوسہارنپور کی جوشمعیں اس وقت جلی
ہوئی ہیں،ان میں سے چند حضرات یہ ہیں:
۱- شیخ الحدیث حضرت مولاناسلیم اللہ خان
صاحب لوہاروی دامت برکاتہم ،جامعہ فاروقیہ، کراچی ، صدروفاق
المدارس العربیہ ،اسلامی جمہوریہ پاکستان .
۲- حضرت مولانا محمد عبد الحلیم صاحب چشتی دامت
برکاتہم ،جامعة العلوم الاسلامیہ علامہ بنوری ٹاوٴن،کراچی
.
۳- حضرت مولانامحمداحمدصاحب انصاری دامت برکاتہم،پیپلزکالونی
،بہاولپور.
۴- حضرت مولانامحمد جمشیدعلی صاحب دامت
برکاتہم،مدرسہ عربیہ،رائے ونڈ.
۵- حضرت مولاناعبدالحنان صاحب دامت برکاتہم، جہانگیرہ،ضلع
نوشہرہ.
۶- حضرت مولانامحمدعبید اللہ صاحب اشرفی دامت
برکاتہم،جامعہ اشرفیہ،لاہور.
۷- حضرت مولاناعبدالستار صاحب تونسوی دامت
برکاتہم،تونسہ شریف ،ضلع ڈیرہ غازی خان.
۸- حضرت مولاناخالد محمودصاحب دامت برکاتہم ،اسلام
آباد(مانچسٹر).
۹- حضرت مولانامحمدنافع صاحب دامت برکاتہم،محمدی شریف
،ضلع جھنگ.
۱۰- حضرت مولاناعبد الکریم صاحب دامت برکاتہم ،کلاچی،ضلع
ڈیرہ اسماعیل خان.
۱۱- حضرت مولانامحمداحسان الحق صاحب دامت برکاتہم ،مدرسہ عربیہ،رائے
ونڈ.
۱۲- حضرت مولانااحمداقبال صاحب دامت برکاتہم،جامشورو،حیدرآباد،سندھ.
۱۳- حضرت مولانامجاہدخان صاحب دامت برکاتہم ،نوشہرہ کلاں،ضلع
نوشہرہ ،خیبرپختونخوا.
۱۴- حضرت مولانااللہ بخش صاحب دامت برکاتہم ،کوٹ قیصرانی
،تونسہ شریف ،ضلع ڈیرہ غازیخان.
۱۵- حضرت مولاناحاجی غلام حیدرصاحب دامت
برکاتہم،چھوٹالاہور،ضلع صوابی، خیبر پختونخوا.
۱۶- حضرت مولانا حمداللہ جان صاحب دامت برکاتہم،ڈاگی،ضلع
صوابی.
۱۷- حضرت مولانامحمدا سلم صاحب دامت برکاتہم،چھوٹا لاہور،ضلع
صوابی .
۱۸- حضرت مولانا قاری آصف صاحب قاسمی دامت
برکاتہم،جامع مسجد فاروقِ اعظم، ناظم آباد، کراچی(کنیڈا).
۱۹- حضرت مولانا غریب اللہ صاحب دامت برکاتہم ،مانکی
،جہانگیرہ،ضلع صوابی .
۲۰- حضرت مولانانعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم،پراچہ ٹاوٴن
،کوہاٹ.
۲۱- حضرت مولانا حضرت علی صاحب دامت برکاتہم،سوکڑی
کریم خان،بنوں،خیبرپختونخوا.
۲۲- حضرت مولانامطلع الانوارصاحب دامت برکاتہم،شیرپاوٴ،پشاور،خیبرپختونخوا.
۲۳- حضرت مولانا مفتی محمد اشرف صاحب چانڈیودامت
برکاتہم،ٹھٹھہ،سندھ.
۲۴- حضرت مولاناحبیب اللہ صاحب دامت برکاتہم،کشروٹ
،گلگت.
۲۵- حضرت مولاناحکیم عبد الرشیدخان صاحب لوہاروی
دامت برکاتہم،نیوکراچی،کراچی
ان حضرات کے تفصیلی حالات جمع ہونے
تک یہ موضوع تشنہٴ تکمیل ہے،ضرورت ہے کہ ان عظیم شخصیات
سے استفادہ کیاجائے،ان کے اعذار ، مصروفیات کاپورا پورا خیال
کرکے، ان کی خدمت میں بصدادب واحترام حاضری دی جائے اوران
کی چاہت ،طبیعت کے مطابق خدمت کرکے دعائیں لی جائیں.
بزرگانِ دیوبندکافہم
وبصیرت:
یہ حضرات
ہمارے نجی ،اجتماعی ،تعلیمی ،تربیتی ،ملکی
،بین الاقوامی مسائل ،مشکلات اور نئے چیلنجز کے بارے میں
بہت اچھی رائے رکھتے ہیں،ان کی باتوں میں ، ان کے طرز
وانداز میں سادگی، بے تکلفی وبے ساختگی کافرق نمایاں
ہوگا،یہ اونچے لوگوں کی شان ہواکرتی ہے، اصحاب ِ بصیرت
جانتے ہیں کہ ان کی سادہ گفتگو،تجاویز اورمشوروں میں کیاکیابرکتیں،حقائق
پوشیدہ ہیں،جس کوظاہربین نگاہیں نہیں پا سکتیں۔
برکت کے ان
سرچشموں سے فیض پانا،ان کی رائے کووقعت کی نگاہ سے دیکھنا،ان
کی تجاویز کوتائیدِغیبی کاحصہ سمجھنا،ان کے وجود
کوبرکت و رحمت کاباعث گرداننا،امت مسلمہ کی تعلیم وتربیت کالازمی
حصہ ہے ،جس پر طبقہ در طبقہ عمل ہوتاچلاآیاہے ، اور اسی کی وجہ
سے ہمیشہ امت گرداب سے نکلی ہے ،مصیبتوں اورآزمائشوں میں
گرکربھی اپنی جداگانہ شناخت ،شان وشوکت اورآن بان کونہ کھوسکی۔
بزرگانِ دیوبند
سے ادنی نسبت رکھنے والابھی علواسناد،بڑے مشائخ سے نسبت اور اس کے نتیجہ
میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرب کی عظیم
سعادت کو نظر انداز نہیں کرسکتا،اس قرب کے حصول کی طلب میں بھی
دوسروں کی عظمت ِشان اورعلوِدرجات کا اقرار پوشیدہ ہے ،جوحقیقی
رفعتِ شان رکھنے والے متواضع لوگوں کی خصلت ہے ،نسبتوں کا احترام، اُس کی
قدربجائے خود ایک بڑی سعادت اورہمیشہ خوش نصیب لوگوں کاشیوہ
رہا ہے۔
مغرب زدہ یا
خودپسندی کے شکارلوگ اس کو’’قدامت پسندی‘‘،اور’’شخصیت پرستی‘‘
سے تعبیر کرتے ہیں ،وہ ان زمانہ سازلوگوں کوراہ کی سب سی
بڑی رکاوٹ سمجھتے ہیں؛کیونکہ ان کے ہوتے ہوئے خود ُان کو ترقی
نہیں ملتی ،لوگ ان کی باتوں پر کان نہیں دھرتے ،ان کی
دانشوری سے استفادہ کرنے پرراضی نہیں ہوتے ۔
وہ سمجھتے ہیں
کہ یہ نہ ہوں تو ان کی ملمع سازیوں اورخودپسندیوں کے لیے
میدان خالی مہیاہو،پھرجس طرح چاہیں، مذہب کی ترویج،ضرورتِ
زمانہ ،تعمیر و ترقی ، درپیش چینلجز،اتحاد امت ،وقت کی
پکار،پالیسی،مفاہمت،عالمی برادری،حالات کی نزاکت ،
انسان دوستی،خدمتِ خلق ،سرکاری مراعات ،عہدوں کی تلاش ،مفادات،
وسیع ترتناظر اور بیسیوں نام وعنوانوں سے لوگوں کاشکارکرسکیں،مسلک
ومذہب کاتیاپانچہ کر سکیں،تصلب وپختگی کی مسلکی
شناخت کا سودا کرکے مغرب سے داد ودہش پاسکیں، اوردوسروں کی آنکھوں میں
خاک جھونک کراپنے تئیں ترجمانِ اسلام، سفیرِاسلام ، خادمِ دین
،لیڈر،ممتازمذہبی اسکالر،محقق ،دانشور،خادمِ قوم وملت، رہبر وراہنما
اورامت کے پُشتی بان بن سکیں !
بدیہی
بات ہے جب کہ بڑی شخصیات اوران کی علمیت وروحانیت
نگاہ میں نہیں ہوتی ،توبے وقت مشیخت وفضیلت کے خواب
دیکھے جاتے ہیں،جس کااثریہ ہے کہ ہم جیسے کمزور لوگوں کودیکھ
کر اب معمولی منشی درجہ کے لوگ بھی اسلامی جماعتیں بناتے
ہیں،تحریکوں،انجمنوں کے سربراہ بنتے ہیں،درسِ قرآن،درسِ حدیث
کی اپنے تئیں مجلسیں سجاتے ہیں ،مختلف فیہ مسائل میں
رائے دیتے ہیں، عربی بول چال سیکھنے سکھانے والے مفسرِ
قرآن،اردوتراجم پرگزارہ کرنے والے محدث،ڈاکٹر اورفقہ سے نابلد مذہب ِ خامس کانام
وعنوان استعمال کرتے نظرآتے ہیں؛بلکہ منجھے ہوئے اہل علم وفن، مسلمہ ارباب
تقوی وبصیرت کو بھی اپنی راہ چلنے کے مشورے دیتے ہیں،ان
کی شکایتیں کرتے ہیں۔
شخصیات وتاریخِ دیوبند پرمزید
کام کرنے کی ضرورت :
قدیم فضلاء
دیوبند کی یہ فہرست ابھی ناتمام ہے ،جوحضرا ت اس حوالے سے
مزید شخصیات کے بارے میں جانتے ہیں،یاکسی نام
کے بارے میں اشکال رکھتے ہیں، کسی کے تفصیلی حالات
معلوم ہیں،وہ اس سلسلہ کی تکمیل کرسکتے ہیں،اس میں
مزیداضافہ کرسکتے ہیں،جس سے طالبانِ علم ،موٴرخین
اورسوانح نگارسب کوفائدہ ہوگا۔
ہرشخصیت کے حوالے سے دوسری تفصیلات
جاننے سے پہلے یہ چند بنیادی سوانحی معلومات فراہم ہونا
ضروری ہے ․
۱۔ صحیح
نام ونسب، عرف:
۲۔ سن
ولادت،مہینہ (ہجری،عیسوی ):
۳۔ وطن،ابتدائی
تعلیم وتربیت:
۴۔ دارالعلوم
یامظاہرِعلوم سے وابستگی،تاریخ( ہجری،عیسوی):
۵۔ مدتِ
تعلیم اورسنِ فراغت ،(ہجری ،عیسوی):
۶۔ اساتذہ
ومشائخ بالخصوص دارالعلوم یامظاہرِعلوم کے زمانہ تعلیم میں:
۷۔ بعدازفراغت
اہم مصروفیات،مشاغل:
۸۔ جائے
سکونت،طریقہٴ کار برائے افادہ واستفادہ:
استاذِ محترم حضرت
اقدس مولاناچشتی صاحب دامت برکاتہم (فاضل دیوبند)کی رائے ہے کہ
دارالعلوم ویوبند کی تاریخ،طبقات ِرجال،انواعِ خدمات ، اثرات
اور عظیم کارناموں کے حوالے سے سندی اورفنی کام کرنے کی
ضرورت ابھی پوری نہیں ہوئی ہے،اس حوالے سے کئی طرح
کے خطے اورخاکے تیارکیے جاسکتے ہیں،جوفنی ،تاریخی
ضرورتوں کے پیش ِنظر اہم عنوانات پر مشتمل ہوں،ان کی رعایت
رکھتے ہوئے صاحبِ ذوق ،معاصر علمی اسلوب اورتحقیقی کاموں سے عملی
واقفیت رکھنے والے ارباب ِقلم بہترشکل میں کام کرسکتے ہیں،جو
حضرات موجودہیں،ان کی معلومات کوتحریری شکل میں
محفوظ کیاجائے، اورجوتحریریں افراد ،اداروں کے پاس جہاں جہاں،
جس جس شکل میں موجود ہیں، ان کوسامنے رکھا جائے ، پھر اس میں عقیدت
واحترام کے اظہار سے پہلے فنی اورسوانحی ضروریات ،تاریخی
حوالوں پرنگاہ مرکوزکی جائے،جس طرح اسماء الرجال اورطبقات کی کتابوں میں
ہوتارہاہے۔
اس عظیم کام
کے لیے پہلے مصادر اورمراجع کی تعیین کرنی ہوگی،اورہرمصدر
ومرجع کی فنی ،تاریخی حیثیت پرگفتگوہوگی،اسی
طرح یہ مصادر ومراجع ،جوتحریرات اورشخصیات کی صورت میں
موجودہیں،ان کے اماکن،دستیابی کی یقینی
اورممکنہ جگہوں ،شخصیات کے نام وپتے،طریقہٴ استفادہ وغیرہ
کوبتایاجائے گا،متعلقہ افراد کووسعت ظرفی اور عالی ہمتی
کا مظاہرہ کرناہوگا،تبادلہٴ معلومات کی نئی نئی شکلوں
کواختیارکرناہوگا،جس کے نتیجہ میں دیوبند کاتذکرہ اورتاریخ
مرتب ہوسکے گی،جس کی سندی،فنی اہمیت ہوگی،یہ
خطے اورخاکے ، مصادر ومراجع کا تعارف،طبقاتی تاریخ، معلوماتی
فہرستیں اورتذکرے عربی،اردو اورانگریزی تینوں
زبانوں میں تیارکرنے کی چیزیں ہیں،اس کی
ضرورت سب کوہے اورہرجگہ ہے ۔
دوہم عصروں کی ایک صدی:
تاریخ حیرتوں
ا ورعجائبات کاسمندراپنے اندر رکھتی ہے،معاصرعظیم شخصیاتِ
دارالعلوم دیوبندمیں ایک ایسی جوڑی بھی
ہے،جس کی رفاقت وہم عصری ایک صدی پرمحیط ہے، جونہ
صرف ایک ہی سال دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے،ایک
ہی درس گاہ میں برابرپڑھتے رہے،آپس میں خوب دوستی ،تعلق
رہا،ایک ہی سال ان کی فراغت ہوئی ؛ بلکہ ان کی پیدائش
کا سال بھی ایک ہی ہے،اوراس سے بھی بڑھ کر دونوں ساتھیوں
کوایک صدی پر محیط طویل عمربھی نصیب ہوئی،
یہ جوڑی دارالعلوم دیوبند اور اکابرِدارالعلوم دیوبند کے حالات
، واقعات ،روز وشب،نشیب وفراز کی شاہداور چلتی پھرتی تاریخ
ہے۔
ان دونوں میں
سے ایک سے تو دنیاواقف ہے،ان کے جاننے والے بہت ہیں،لوگ ان کو
حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحب رحمہ اللہ تعالی کے نام نامی سے یاد
کرتے ہیں،جودارالعلوم دیوبند کے اہتمام کے منصبِ جلیل پرفائز
تھے،اورحضرت مولانا اسعد مدنی صاحب رحمہ اللہ تعالی کے بعد ’’امیر
الہند‘‘قراردئے گئے تھے،ابھی حال ہی میں ان کا یکم محرم
الحرام،۱۴۳۲ھ،مطابق ۸،دسمبر۲۰۱۰،بدھ کے روزاپنے
وطن بجنور میں انتقال ہوا،جمعرات کی شب دارالعلوم میں ان کی
نمازجنازہ اداکی گئی،اورقبرستانِ قاسمی میں اکابردیوبندکے
پاس آسودہ خاک ہوئے۔
دوسری شخصیت
جو اب اکیلی رہ گئی ہے، ان کے جاننے والے کبھی بہت تھے،ان
کے قدردان بھی بڑے لوگ تھے،مگران سے واقف لوگ اب کم ہی رہ گئے ہیں،
کبھی توان پر شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالی کی
شفقتیں ہوتی تھیں،حضرت کشمیری رحمة الله علیہ
کی زیارتیں ،حضرت محدث دیوبندی رحمة الله علیہ
،حضرت حکیم الامت علامہ تھانوی رحمة الله علیہ ،حضرت مفتی
کفایت اللہ صاحب رحمة الله علیہ ، حضرت شیخ الأدب صاحب رحمة
الله علیہ ،حضرت بلیاوی صاحب رحمة الله علیہ ،حضرت قاری
صاحب رحمة الله علیہ ،حضرت ابو المحاسن سجاد صاحب رحمة الله علیہ
،آزاد صاحب رحمة الله علیہ ،حضرت میرٹھی صاحب رحمة الله علیہ
،حضرت عثمانی صاحب رحمة الله علیہ ، حضرت لاہوری رحمة الله علیہ
اور اس عہد کے دوسرے بزرگوں کی صحبتیں،مجلسیں اورعنائتیں
ہواکرتی تھیں،اورحضرت سیوہاروی رحمة الله علیہ
،حضرت مولانا محمد میاں صاحب رحمة الله علیہ، حضرت شیخ الحدیث
صاحب رحمة الله علیہ، حضرت بدرعالم صاحب میرٹھی رحمة الله علیہ،حضرت
عبدالحق انفع صاحب رحمة الله علیہ، حضرت عبد الحق نافع صاحب رحمة الله علیہ،حضرت
بنوری صاحب رحمة الله علیہ ، حضرت پھولپوری صاحب رحمة الله علیہ
کی رفاقتیں ہوتی تھیں، اس دور کے دوسرے بزرگوں ،مشائخ کی
نیاز ومحبت پانے کی شکلیں ہوتی تھیں، مگرگئے وقتوں
کے ساتھ أن کی باتیں بھی جاتی رہیں،صرف یادیں
باقی رہ گئیں ۔
تاہم اب بھی
حضرت اقدس مولاناچشتی صاحب دامت برکاتہم،حضرت اقدس صدر وفاق دامت برکاتہم
اور ان کے متعلقین اپنے بزرگوں کی نسبتوں کے احترام میں ان کے
پرسانِ حال رہتے ہیں،زیارت وملاقات کرتے ہیں یہ ان کاظرف
ہے اور اپنے بزرگوں کی نسبتوں کے احترام اورقدردانی کی عملی
تعلیم جووہ اپنے متعلقین کودیناچاہ رہے ہیں ۔
ایک شمعِ
فروزاں:
’’تاریخ دارالعلوم
دیوبند‘‘ میں مہتمم دارالعلوم حکیم الاسلام حضرت مولاناقاری
محمدطیب صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اپنے اِس شاگرد کا’’اسماء گرامی
حضرات مدرسین درجہٴفارسی‘‘ کی فہرست میں اٹھارویں
نمبرپریوں ذکرکیاہے،’’مولانا اصلح الحسینی مدظلہ، گلاوٴٹھی
،ابتدائی سن ۱۳۶۲ھ تاآخری سن ۱۳۶۷ھ‘‘ . (تاریخ دارالعلوم دیوبند،ازحضرت حکیم
الاسلام ،مہتمم دارالعلوم، ص:۱۱۶،طبع:دار الاشاعت
،کراچی،ستمبر۱۹۷۲/)
اس فہرست میں حضرت مولانا محمدیاسین
صاحب دیوبندی ،رحمہ اللہ تعالی ،حضرت مولاناخلیفہ منشی
عاقل صاحب رحمہ اللہ تعالی کے نام نامی بھی موجودہیں،حضرت
والااِس وقت بھی الحمدللہ اپنی نقاہت وعلالت ،پیرانی سالی
کے باوصف ہمارے درمیان موجو د ہیں، موصوف کی ولادت حضرت اقد س
مولاناسیدمحمد صالح صاحب مرحوم کے گھرضلع بلندشہر کے قصبہ گلاوٴٹھی
میں بروزجمعرات،۲۶/محرم الحرام ۱۳۳۲ھ،مطابق ۲۵/دسمبر۱۹۱۳/کو ہوئی ،
والدصاحب حضرت اقدس گنگوہی رحمة الله علیہ سے بیعت تھے، حضرت کے
دادا حضرت مولاناصوفی محمدحسن صاحب رحمہ اللہ تعالی گلاوٴٹھی
میں حضرت سالارمسعودغازی رحمہ اللہ تعالی کی جامع مسجد میں
واقع اس مدرسہ منبع العلوم کے بانیوں میں شامل تھے،جہاں ان کے بقول
حجة الاسلام علامہ نانوتوی رحمہ اللہ تعالی دہلی سے تکمیل
کے بعدتدریس سے وابستہ ہوئے تھے ، حضرت اقدس مولانا عبد الغنی صاحب
پھولپوری رحمہ اللہ تعالی بھی اسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے
تھے،شایداسی وجہ سے موصوف کا ان سے تعلقِ خاطر تھا،گلاوٴٹھی
کا علاقہ تحریکِ آزادی کے مجاہدین کاتھا،جس کی وجہ سے
حضرت نانوتوی رحمة الله علیہ کو ان سے خاص تعلق تھا، محلِ وقوع کے
اعتبارسے بھی شاملی،میرٹھ وغیرہا جہاد ومجاہدین کے
دوسرے مراکز قریب ہی واقع تھے ۔
خود فرماتے ہیں:(غالبا)
تیرہ سال کی عمر تھی ،فارسی پڑ ھ رہاتھا، شیخ
الاسلام حضرت مدنی رحمہ اللہ تعالی گلاوٴٹھی تشریف
لائے تھے،موصوف کے والدحضرت کے پیر بھائی اورعمر میں ان سے
چارسال چھوٹے تھے،دونوں ایک ہی سال قطب عالم حضرت گنگوہی رحمة
الله علیہ سے بیعت ہوئے تھے، حضرت مدنی نے ازراہِ شفقت ،وخوش
طبعی درجہٴ فارسی کی مناسبت سے کچھ سوالات بھی کیے
تھے،جس کوکبھی کبھی بڑی محبت سے سناتے ہیں۔یہ
پہلی زیارت و ملاقات تھی،جس کے بعد عمر بھر کے تعلق اورنسبتوں کی
سبیل پیداہوئی ، تقریبا ۱۹۲۷/کے لگ بھگ دارالعلوم دیوبند آئے، حضرت علامہ کشمیر
ی صاحب رحمة الله علیہ ڈابھیل چلے گئے ،تو۳۱۔۱۹۳۲/ میں حضرت مدنی ،حضرت میاں اصغرحسین
صاحب،حضرت بلیاوی صاحب ، حضرت شیخ الادب صاحب ،حضرت قاری
صاحب رحمہم اللہ تعالی و غیرہم اکابر ین سے دورئہ حدیث
پڑھنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔
حالات و واقعات :
دورہٴ حدیث میں حضرت مولانازاہد الحسینی
صاحب ،حضرت مولانا حبیب اللہ صاحب مہاجر مدنی بن حضرت لاہوری، حضرت
مولاناایو ب جان صاحب بنوری ، حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی،حضرت
مولانا مرغوب الرحمان صاحب ،رحمہم اللہ تعالی اورحضرت اقدس مولانا عبدالحنان
صاحب دامت برکاتہم (غالباً) ان کے ہم درس رہے ،جوبجائے خودعظیم شخصیات
ہیں،ان کی اپنی ایک تاریخ ہے ،کیاعجیب
پر نور ماحول ہوتاہوگا،جب اس طرح کی عظیم شخصیات شاگردوں کی
نشستوں پر بیٹھے زانوئے تلمذ تہ کرتی ہوں گی، تو مسندِدرس پر بیٹھنے
والے اساتذہ کامقام کیا ہوگا !ہے کوئی درس گاہ روئے زمین پر
جوپچھلے ڈیڑھ سوسال میں اس طرح کی تابناک تاریخ رکھتی
ہو؟
حضرت مولانا سید
محمداصلح الحسینی صاحب دامت برکاتہم بائیس برس کی عمر میں
نواب حمید اللہ خان کے زمانہ میں ریاست بھوپال میں شرعی
عدالت علیاکی مجلس علماء کے لیے منتخب ہوئے تھے، اس عالی
منصب کے لیے مطلقاً انتخاب بھی بڑے فخر کی بات ہواکرتی تھی،
بڑے بڑے اہلِ علم ہی اس منصب کے لیے اہل قراردئے جاتے تھے؛ چہ جائکہ
بائیس سال کی عمر میں اس کے لیے منتخب ہوجانا!؛
مگربدخواہوں کی بات چل گئی،تواس پر رنجیدہ خاطر ہوئے، حضرت شیخ
الاسلام کوخبردی، حضرت شیخ الاسلام نے جوا ب میں جو خط لکھا،ا س
میں جس شفقت آمیز لہجہ میں ان کو صبرکی تلقین کی،
وہ خط ان کی زندگی کی قیمتی متاع ہے ، اس میں‘‘
عزیزم’’ کامحبت بھرا خطاب بھی ہے ،جو ان کے بقول بہت کم کسی کے
نصیب میں ہے۔
موصوف دار العلوم
دیوبندمیں ۱۳۶۲ ھ سے لے کر۱۳۶۷ھ تک درجہٴ
فارسی کے مدرس رہے،حضرت شیخ الحدیث مولاناعبد الحق صاحب رحمہ
اللہ تعالی بھی اسی عرصہ میں مدرسِ عربی مقرر ہوئے
تھے،جن کے پاس دورہٴ حدیث تک کے اسباق تھے،فہرستِ مذکور کی کئی
نامورشخصیات بھی ان کے تلامذہ میں شامل ہیں،’’مدرس درجہٴ
فارسی‘‘ اور’’مدرس عربی‘‘ دارالعلوم کی اپنی خاص اصطلاحات
ہیں،درجہٴ فارسی میں مثنوی ، سکندر نامہ وغیرہ
پڑھاتے رہے ، کئی شخصیات ان کے شاگردوں کی فہرست میں آتی
ہیں۔
دارالعلوم دیوبند
اورحضرت شیخ الاسلام رحمة الله علیہ سے جو تعلقِ خاطر تھا، اس قربت کے
پیش نظرکبھی جدائی کاخیال نہیں آسکتا،حضرت کی
خدمت میں رہتے ،حضرت ہی نے شادی کرائی ،تقریب میں
شریک رہے؛ بلکہ اخراجات تک کابندوبست کیا ،لیکن بعض اضطراری
حالات کی بناپراس جدائی کوبرداشت کرناپڑا،تقسیمِ ہند کے بعد
پہلے اپنے چھوٹے بھائی مفتی اکمل صاحب رحمہ اللہ تعالی کوساتھ
لے کر ہمشیرہ صاحبہ کوپاکستان چھوڑنے آئے ، اس کے بعد واپس چلے گئے،پھران کی
بیماری کی خبر آئی،چونکہ،بچپن میں والدہ محترمہ کاانتقال
ہوا تھا،ہمشیرہ سے تعلق ماں جیساتھا؛ اس لیے ان کے پاس آگئے،اس
وقت تک بغیرپرمٹ آمدورفت ہواکرتی تھی ،دوبارہ پاکستان آنے کے
بعد پرمٹ کاسلسلہ شروع ہوا، حضرت شیخ الحدیث مولانا عبد الحق صاحب’’
انفع‘‘ رحمہ اللہ تعالی کی طرح موصوف کے لیے بھی دوبارہ
بآسانی جانے کے راستے تقریباً مسدود ہوگئے ؛ اس کی وجہ سے
چاروناچار دیوبند اور حضرت شیخ الاسلام رحمة الله علیہ کی
حسرتیں دل ہی دل میں رکھ کریہیں کے ہورہے ،ان دنوں
نقلِ مکانی کے دوران دونوں طرف نہایت خون خرابہ ہواتھا،حضرت سے خاص
تعلقِ خاطر ،ان کی شفقت الگ سے تھی ، اپنی خاص مجلسوں میں
نہایت دردبھرے لہجے میں ان کے لیے دعاکی۔
نقلِ مکانی
کے بعدذوق ومزاج کے برخلاف نئے ماحول کی زندگی میں کئی نشیب
وفرازآئے ،اپنوں اورپرایوں کودیکھاپرکھا،شغل ومصروفیت کے کئی
سلسلو ں سے وابستگی کاخیال باندھا ، دارالتصنیف حب ریورروڈ
سے منسلک رہے،حضرت علامہ بنوری رحمہ اللہ تعالی نے بینات میں
کام کرنے کوکہا، بعض جگہ درسِ حدیث کی بھی بات چلی ؛ مگر
بوجوہ ایسا نہ ہوسکا،علمی مصروفیت کا کوئی ایک جلی
عنوان قائم نہ ہوسکا،ویسے بھی ہم لوگوں کامزاج یہ ہے کہ استفادہ
کے لیے تو مسندوں کوتلاش کرتے ہیں، مگرمسندوں کے لیے شخصیات
کو ڈھونڈنکالنا ،گویاکسی ابھری ہوئی شخصیت سے اغماض
برتناخیال کرتے ہیں ،خود دارالعلوم دیوبند میں چوٹی
کے اساتذہ حضرت کشمیری رحمة الله علیہ ،حضرت مدنی رحمة
الله علیہ ،حضرت مہدی حسن صاحب رحمة الله علیہ وغیرہم کا
انتخاب رسمی تکمیل کے کئی سال بعد ہوا تھا،اوراصحاب ِمسندمشائخ
نے ہی بلاکر کیاتھا۔
صحافت حضرت کاخاص
موضوع رہاہے، کلکتہ میں مولا نا ابو المحاسن سجاد صاحب رحمة الله علیہ
کی سرپرستی میں ’’البلاغ‘‘ میں کام کرتے رہے،ان کی
غیرتِ ایمانی اورجذبہٴ جہاد کا ذکر فرماتے ہیں،
مولاناآزاد صاحب رحمة الله علیہ سے صحبتیں رہیں ، ان کاانٹریولیاتھا،
الجمیعت دہلی میں بھی لکھتے رہے، جمعیت علماء ہند
سے تعلق تھا،تحریکِ آزادی میں حصہ لیا ،جیل بھی
جانا پڑا ، لیگ وکانگریس کے داخلی معاملات سے بھی خوب
واقفیت رہی ،بایں ہمہ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ
،حضرت سلیمان ندوی رحمة الله علیہ ،حضرت شیخ الاسلام
عثمانی رحمة الله علیہ،وغیرہم حضرا ت کی صحبتوں سے بھی
فیضیاب ہوئے،دوسری طرف کے بزرگوں میں توگویا وہ جی
رہے تھے،اور انہی کاذوق ومزاج پایا۔
حضرت شیخ
الاسلام رحمة الله علیہ کے سیاسی مسلک کے حوالے سے ان کی
معلومات اس وقت سند کا درجہ رکھتی ہیں، وہ ایک مکمل ڈائری
ہیں،سفر وحضر کے اتنے قریب سے دیکھے، سنے ہوئے واقعات، حالات کے
بارے میں بالخصوص حضرت شیخ الاسلام رحمة الله علیہ اورجمعیت
علماء ہند کے دیگر اکابر و اصاغر کے ذوق ومزاج ،طرز وطریقہٴ کار
کوسمجھنے والے کم ازکم پاکستان میں باستثناء حضرت مولانا مجاہدخان صاحب دامت
برکاتہم شاید اب کوئی نہ ہو،ماضی میں دارالعلوم دیوبند
بالخصوص شیخ الاسلام اورجمعیت علماء ہند کے دوسرے اکابرکے بارے میں
جو کچھ لکھاگیاہے،یاحال میں ڈائریاں مرتب ہوئی ہیں
، ان کے بارے میں اِن‘‘ قدماء’’ کے مختصر جملے، محتاط آراء نہایت بالغ
نظری کانمونہ ہوتی ہیں،جن میں اختصار واجمال کے باوجود
تاریخی جرح وتعدیل کامزاج رکھنے والے محققین کے لیے
نہایت اہمیت کے حامل اشارے ہواکرتے ہیں،کئی باتوں کی
کڑیاں مل جاتی ہیں، لکھنے والوں کی قدکاٹ کا اندازہ
ہوجاتاہے اور واقعات وحالات کے نئے نئے گوشے سامنے آجاتے ہیں۔
امیر الہند
حضرت مولانامرغوب الرحمان صاحب بن حضرت مولاناحکیم مشیت اللہ صاحب
رحمہما اللہ تعالی بجنوری،مہتمم دارالعلوم دیوبند ،حضرت
مولانامنت اللہ صاحب رحمانی بن حضرت مولانا محمد علی مونگیری
رحمہما اللہ تعالی،امیر شریعت بہار اورحضرت مولانامحمد اصلح
صاحب الحسینی دامت برکاتہم تینوں حضرات کا سن ولادت(۱۳۳۲ھ مطابق ۱۹۱۳/) ایک
ہونے کے علاوہ فراغت کی تاریخ(۱۳۵۲ھ مطابق ۱۹۳۲/) بھی ایک ہے،چندمہینوں کے فرق کے ساتھ
موٴخر الذکر بڑے بھی ہیں اورطویل العمر بھی، ان
بزرگوں میں خوب محبت ،تعلق کارشتہ قائم رہا، خود فرماتے ہیں،مولانا
مرغوب الرحمان صاحب رحمة الله علیہ سے کبھی نوک جھونک ہوتی تومیں
کہتا: میں تم سے عمرمیں بڑا ہوں؛ کیونکہ میری پیدائش
محرم میں ہوئی ہے ،تمہاری بعد میں،امیر شریعت
حضرت مولانا منت اللہ صاحب رحمانی کاانتقال۳،رمضا ن ۱۴۱۱ھ مطابق ۱۹،مارچ ۱ ۱۹۹/ کو ہوا،ان دوحضرات کی جوڑی باقی رہی،
حضرت مولانا مرغوب الرحمان صاحب رحمہ اللہ تعالی کی وفات یکم
محرم الحرام،بدھ کے روز ہوئی ،منگل کے روز ۷/ دسمبر کو
ان کے صاحبزادے مولانامحبوب الرحمان صاحب سے فون پر بات ہوئی ،موصوف اس وقت
اپنے وطن بجنور میں والدِ گرامی قدر کی خدمت میں
حاضرتھے،دونوں ساتھیوں نے ایک دوسرے کی خیرخیریت
دریافت کی اور دعاوٴں کے لیے ملتجی ہوئے ، یہ
گفتگوآخری ثابت ہوئی۔
حضرت والا گلشن
اقبال ،کراچی میں برخوردار محترم جناب سیدطہ صاحب کے ساتھ رہائش
پذیر ہیں، تفصیلی حالات ہنوزمرتب ہوناباقی ہیں،حضرت
مفتی مظہر اسعدی صاحب (بھاولپور) اوردیگر کئی حضرات کی
ان سے ملاقاتیں ہیں،یہ سب معلومات جمع ہونے کے بعد تنقیح
وترتیب دے کر سوانحی خاکہ تیارکیا جاسکتاہے،جس کے لیے
قارئین سے معلومات بہم پہنچانے کے ساتھ ساتھ دعاوٴں کی بھی
درخواست ہے،کہ اس کی توفیق کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرسکتا،
اللہ کرے کہ ہمیں ِان بزرگوں کی برکات ،علوم ومعارف سے بیش ازبیش
مستفید ہونے کی توفیق عنائیت ہو اور تادیر اِن
حضرات کاسایہ ہمارے سروں پرقائم رہے،اللہم آمین!
***
-------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 3 ،
جلد: 95 ، ربیع الثانی 1432 ہجری مطابق مارچ 2011ء